نبوت کا سہلواں جھوٹا دعویدار :بابک بن عبد اللہ خرمی



نبوت کا سہلواں جھوٹا دعویدار :بابک بن عبد اللہ خرمی

تاریخ اسلام  سے معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کےلیے بہت سے فتنے نمودار ہوتے رہے ہیں ،ان میں سے سب سے بدترین فتنہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے تھا،ہم نبوت  کے جھوٹے دعویداروں کے سلسلے ہی کی اگلی تحریر آپ  کے سامنے پیش کرنے جارہےہیں،اس میں  نبوت کے جھوٹے دعویدار  بابک بن عبد اللہ کا تعارف پیش کریں گیں ۔اس سیریز سے یہ بات بڑی حد تک واضح ہو رہی ہے کہ نبوت کے جتنے بھی  جھوٹے دعویدار آئے،ان کا بیک گراونڈ دھندلا سا ہی ہے۔وہ ایک دم سے جھاگ کی طرح اٹھے،کچھ عرصہ چھائے اور پھر جھاگ کی طرح ہی بیٹھ گئے،اور اس کے بعد صورت حال ایسی ہوگئی کہ جیسے  وہ کبھی تھے ہی نہیں۔قانون خداوندی ہے کہ حق آجائے تو باطل مٹ جاتا ہے۔بس ایسے ہی بہت سے باطل  آتے رہے ،وہ نبی آخر الزمان کی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور باطل ہونے کی وجہ سے  مٹ گئے۔انہی  نبوت  کے جھوٹے دعویداروں میں سے ایک بابک بن عبد اللہ خرمی ہے۔بعض مورخین نے اسے ولد الزنا بھی لکھا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ اس کا باپ مدائن میں تیل کا کام کرتا تھا،اس نے آذر بائیجان  میں رہائش اختیار کرلی،وہاں اس نے  کسی عورت سے ناجائز تعلق قائم کیا،دوران تعلق مقامی لوگوں نے دیکھ لیا،عورت پکڑی گئی اور یہ بھاگ گیا۔عورت کو خوب زودوکوب کیا گیا۔اس تعلق سے پھر یہ بابک پیدا ہوا۔لیکن بعض مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ  جس عورت سے بابک کے باپ نے ناجائز تعلق قائم کیاتھا،پھر اسی سے اس نے شادی کی تھی اور شادی کے بعد بابک پیدا ہوا تھا،اس لیے یہ ولد الزنا نہیں ہے۔اسی بات کو مورخین ترجیح دیتے ہیں۔بہر حال  بابک کا والد اس کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد  کسی کام کی غرض سے گھر سے باہر گیا،وہ وہیں کہیں قتل ہوگیا،گھر واپس نہیں آیا، اس کے بعد بابک کی والدہ  دایہ گری کا کام کرنے لگی،اس نے اپنے بیٹے  کے بچپن میں ہی اس کے سوتے ہوئے کوئی نشانی دیکھی،جس سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ بہت عروج حاصل کرے گا،چنانچہ اس کا اندازہ درست ثابت ہوا ،لیکن وہ ہدایت کی بجائے گمراہی میں عروج کو پہنچ گیا۔اس کا سفر عروج اس طرح شروع ہوا کہ آذر بائیجان کے ایک علاقے میں دو رئیس صاحب اقتدار تھے،ایک جگہ دو لوگ حاکم ہوں تو وہاں کیا خرابی پیدا ہوسکتی ہے ،وہ آپ اندازہ کر سکتے  ہیں ،چنانچہ یہاں  لڑائی جھگڑے  اور قتل وغارت جاری رہتی تھی۔اس نے کسی نا کسی طرح ایک قبیلے کے رئیس کی قربت حاصل کرلی،اس کے   کچھ ہی عرصے بعد وہ فوت  ہوگیا،اس کی ساری جائیدا د پر دوسرے حاکم نے قبضہ کرلیا۔ بابک خوش شکل تھا،اس نےاپنی خوبصورتی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے  حاکم کی بیوی سےخفیہ اور  ناجائز تعلق کی راہیں تلاش کیں ، اسے ورغلا لیا،اور اپنے دام میں  پھنسا لیا۔اسی دوران   وہ حاکم بھی بظاہر طبعی موت مر گیا،اب   بابک کے اس عورت تک پہنچنے کے راستے ہموار ہوگئے،اس عورت نے اپنے خاوند کی جھوٹی وصیت  اپنے لوگوں کو سنا کرانہیں بابک سے شادی پر رضامند کرلیا اور بابک سے شادی رچالی۔یوں بابک دونوں قبیلوں کا سردار بن گیا اور ایک دم سے فرش سے اٹھ کر تخت پر پہنچ گیا۔پہلے یہ اسماعیلی تھا،پھر اس نے  آذر بائیجان کے سرداروں کا مذہب قبول کیا،جو مجوسی تھا،پھر جب  یہ   حاکم کی عورت سے شادی رچا کر حاکم بنا تو اس نے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی،اسے تاریخ میں بابکیہ،حرمیہ،سبعیہ یا خرمیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس نے پہلے کہا کہ مجھ میں اس حاکم کی روح  ہے،جس کی بیوی   کو اس نے ورغلا کر شادی کی تھی،پھر کہا کہ  مجھ میں  ساتھ  ہی اللہ کی روح بھی سرایت کر گئی ہے۔اس کے بعد اس نے عقیدہ تناسخ کی تعلیم دینا شروع کردی،یہ کہتا کہ روحیں انسانوں اور جانوروں میں  منتقل ہوتی رہتی ہیں،اس نے  ہر طرح کی حرام چیزوں   کوحلال کردیا،عیش وعشرت کو مذہب کا لازمی جزو بنادیا،بدکاری،شراب اور محرمات سے نکاح  جائز کردیا،خواہش پرست اس کے گرد جمع ہوگئے،ان کی تعداد بڑھنے لگی،یہ خود بھی جس خوبصورت عورت کو دیکھ لیتا،اسے   طلبی کا پیغام بھیجتا اور اگر انکار ہوتا تو گرفتار کروالیتا اور اس حسینہ پرجبرا قبضہ کرلیتا،اس کی تعلیم  برائیوں کا مجموعہ تھی،خواہشات کے پجاریوں کےلیے  تو یہ  تعلیمات  قابل قبول تھیں،اس طرح  اہل ہمدان اور اہل اصفہان نے خود کو اس کی تعلیمات   کے مطابق کرلیا،جب اس کے حواریوں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی تو اس نے  دو سو ایک ہجری میں خلافت اسلامیہ کے خلاف بغاوت شروع کردی،اس وقت مامون کا دور تھا،وہ  داخلی معاملات کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ نہ ہوسکا،اگر کسی چھوٹے موٹے لشکر کو  اس کی سر کوبی کےلیےاس نےبھیجا تو وہ اس سے شکست کھاگیا،لیکن مرتے ہوئے اس نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی کہ خرمیوں سے غفلت نہ کرنا ، ورنہ  اُن کا فتنہ بہت خطرناک ثابت ہوگا  ۔ابن جریر طبری اور ابن اثیر نے اپنی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ مامون کے بیٹے  معتصم نے ان کے مقابلے میں غفلت نہ کی اور زبردست تیاری کے ساتھ  فوج   روانہ کی ۔بالاخر  اسحاق بن ابراہیم  کی امارت میں یہاں فتح نصیب ہوئی ،  اسحاق بن ابراہیم کو اس  تمام علاقے   کا  پہلے ہی امیر  مقرر کر دیا گیا تھا۔اس نے بابک کی فوج کے ساتھ مقابلے میں  صرف ہمدان کے علاقے میں  ساٹھ ہزار مرتدین کو ٹھکانے لگایا   جو بابک خرمدین کے پیروکار بن گئے تھے۔ باقی خرمی رومی علاقوں کو بھاگ نکلے۔دوسو اکیس ہجری میں ان کا فتنہ  پھرعروج کو پہنچ گیا ، معتصم نے اپنے سب سے بڑے ترک سپہ سالار افشین کو بابک خرمدین کی مہم پر متعین  کیا،عباسی ترکی سپہ سالار افشین اور بابک خرمدین کے درمیان طویل  عرصہ تک  مختلف مقامات پرمعرکے ہوتے رہے۔کبھی ان کا پلڑا بھاری  رہاتو  کبھی ان کا۔بالاخر   ربیع الاول دو سو بائیس ہجری  میں افشین نے بابک خرمدین کے مرکزی مقام    پر حملہ کر دیا ۔  فریقین میں سخت خونریزی ہوئی۔ آخر کار افشین کی  فوج غالب آگئی اور  مرکزی مقام  میں داخل ہو گئی۔ محلات میں آگ لگا دی گئی۔ بابک خرمدین یہاں سے بھاگ نکلا۔ اس کی ماں  اور بھائی گرفتار کر لیے گئے۔بابک   آرمینیا کے پہاڑوں  میں جا چھپا۔ افشین کے جاسوس اُس کے تعاقب میں پیچھے پیچھے تھے۔ بالاخر  بابک خرمدین کو گھیرے میں لاکر گرفتار کر لیاگیا۔ معتصم کے حکم کے مطابق   بابک خرمدین کو دربارِ خلافت مین پیش کیاگیا۔انہوں نے بابک کے جرائم کے مطابق اسے فساد فی الارض  کی سزا دی ، اُس کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے گئے،اس کے بعد اسے ایسے ہی مرنے دیا گیا اور لاش کو عبرت کےلیے سولی پر لٹکادیا گیا۔بابک نے ساٹھ ہزار مسلمان  خواتین کو یرغمال بنایا ہواتھا،جسے اس کے پنجے سے چھڑایا گیا۔اس کے بھائی کو بھی سولی پر لٹکا دیاگیا،یوں یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔ حق غالب آیا،اور باطل مٹ گیا۔کیونکہ باطل حق کے مقابلے میں بالاکر مٹ ہی جاتاہے۔ نبی کریم (ص) اللّٰہ تعالیٰ کے آخری رسول اور آخری نبی ہیں، نبوت کے دروازہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) پر بند فرمادیا،آپ کے بعد کوئی  بھی  شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا تو وہ جھوٹا اور کذاب  ہی ہوگا۔ا ٓپ کی لائی ہوئی ہدایت دینِ اسلام آخری ہدایت ہے اور اسی پر انسانیت کی کامیابی کا مدار ہے۔

تحریر : ( ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران