نبوت کاستارہوں جھوٹا دعویدار:علی بن فضل یمنی

نبوت کاستارہوں جھوٹا دعویدار:علی بن فضل یمنی


نبوت کاستارہوں جھوٹا دعویدار:علی بن فضل یمنی

آج میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے پیغمبراو رسول بھیجے تاکہ وہ اپنی قوم کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں اور انہیں شیطان کے جال سے محفوظ رہنے کے گر سکھائیں۔ چنانچہ نبی کریم(ص) کو رب تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں  ا ور جنوں  کیلئے نمونہ حیات بنا کر بھیجا۔اور ان کی ہدایت کا بندوبست آپ (ص) کی نبوت  ورسالت کے ذریعے سےکیا ہے،لیکن  انسانیت کو بھٹکانے کیلئے شیطان ازل سے برسرپیکار ہے اور مختلف لبادوں میں معصوم اور بھولے بھالے انسانوں کو بھٹکانے کا سامان کرتا رہتا ہے۔ تاریخ اسلام  میں کئی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کیا اور پھر خود نبوت کا دعوی کردیا۔انہی میں سے ایک   علی بن فضل یمنی ہے۔ یہ شخص  دوسو ترانوے  ہجری میں نمودار ہوا،ابتدا میں اسماعیلی فرقہ کا پیرو کار تھا ۔یمن کے شہر صنعا کے مضافات سےصنعا  کے شہر میں  آیا اور وہاں آکر نبوت کا دعوی کیا۔لوگوں کو اپنے  خود ساختہ مذہب کی تبلیغ کرنے لگا ۔ان ایام میں  یمن میں عباسی خلیفہ کی جانب سے  اسعد بن جعفر گورنر مقرر تھا،اس نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔اس کی نبوت پر لوگوں نے بھی ابتدا میں  کان نہیں دھرے،یہ کافی عرصہ ایسے ہی مختلف شوشے چھوڑتا رہا،کوئی اس کی طرف متوجہ نہ ہوتا۔لوگ اس کے ہمنوا نہیں بن رہے تھے،پھر اس نے وہی حربہ اختیار کیا جو اس  سے پہلے کئی  نبوت کے جھوٹے دعویدار اختیار کر چکے تھے،اس نے شعبدہ بازی سے لوگوں کو ورغلانے کا منصوبہ بنایا،اس نے کچھ کیمکلز لیکر اس کی گولیاں بنائیں، خاص مواد  سے آگ جلا کر  اس کے کوئلے بنائے اور پھر اس میں  وہ کیملکلز سے بنی گولیاں پھینک دیں،اس کے بعد ان  کیمکلز کی وجہ سے سرخ رنگ کا دھواں اس سے اٹھنے لگا، اور وہ دھواں  فضا میں پھیل گیا،پھر اس دھویں کو اس نے  کسی دوسری ترکیب سے  ٹریٹ کرکے ماحول ایسا بنا دیا کہ  جس سے دھویں کی تاریں  بننے لگیں اور ان تاروں میں  انسان کی  سوچ کے مطابق عکس نظر آنے لگے،یعنی جس نے جو شکل سوچی ،اسے ویسی ہی شکل  اس دھویں کی تاروں میں نظر آنے لگی،اس کیفیت کو علی نے اپنے حق میں  اس طرح استعمال کیا کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں محبوط کرکے کہنے لگا کہ اس میں بہت سی ناری مخلوقات ہیں،جو آپ کو نظر آئیں گی ،جو گھوڑوں پر سوا رہونگی۔ اور ایک دوسرے سے جنگ کرر ہی ہونگی،یہ اصل مین ان لوگوں کو سزا مل رہی ہے جنہوں   مجھے پہلے جھٹلایا،لوگوں نے پھر اس کی طرف دیکھنا شروع کیا تو ان کا ذہن وہی انہیں دکھانے لگا،جو علی بن فضل نے انہیں کہا تھا۔وہ علی کے ٹریپ  میں ا ٓچکے تھے۔جب لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو سمجھنے لگے کہ ہم نے علی کی نبوت کو لفٹ نہیں کروائی ،اس لیے یہ  اس  کے انکار کرنے پر ان کو عذاب کا اشارہ دیا جا رہا ہے۔ لہذ ا ہمیں اس کی نبوت کی تصدیق کرنی چاہیئے،چنانچہ  لوگ  جوق در جوق اس کی نبوت کو قبول کرنے لگے   اور اس پر ایمان لانے لگے،یوں دیکھتے ہی دیکھتے  مجوسی  لوگوں کا جم غفیر اس کے گرد جمع ہوگیا اور یہ  ان کا نبی بن بیٹھا۔ اس کی اس شعبدہ بازی سے مسلمان تو متاثر نہ ہوئے، انہوں نے لوگوں بہت سمجھایا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے،لیکن آگ کے پجاریوں کی اکثریت تھی، اور آگ سے نکلنے والے دھویں  سے ان کو شعبدہ دکھایا گیا تھا،چنانچہ وہ  تو اسے حقیقی  ہی سمجھنے لگے۔اور اس کے پیروکار بن گئے۔ان پر مسلمانوں کے سمجھانے کا کوئی خاص اثرنہ ہوا۔ یہاں ایک اور بات آپ کے سامنے رکھتا جاوں ،یہ نبوت کے جتنے بھی جھوٹے  دعوے دار  گزرے ہیں،ان میں سے اکثریت ایسی ہے  کہ جو صرف  نبوت کے جھوٹے دعوے پر ہی نہیں رکی بلکہ وہ خدائی کے دعوےدار بھی ہوگئے،یعنی انہوں نے سوچا کہ باطل  اختیار کرنا ہے  یا، لوگوں کو گمراہ کرنا ہے،توکیوں نہ اس کی انتہا تک ہی پہنچا جائے۔اس طرح نبوت کا جھوٹا دعویدار علی بن فضل یمنی بھی نبوت کے بعد خدائی کا دعویدار ہوگیا۔یعنی جھوٹ بولنا ہے تو پھر انتہا کا ہی بولا جائے،اسی پر اس نے عمل کیا ۔ وہ عقل کے اندھے اپنے پیروکاروں کے نام کوئی خط لکھتا تو اس کا عنوان یہ ہوتا ،جس کا ترجمہ میں آپ  کے سامنے رکھ رہا ہوں،وہ لکھا کرتاکہ زمین کوچلانے والے اور روکنے  والے اور اسی طرح  پہاڑ کے ہلانے والے  اور ٹھہرانے والے علی بن فضل کی جانب سے فلاں بن فلاں کے نام)۔ یہ اس کے خط کا آغاز ہوتا تھا، اس نے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلیے اور بھی تعلیمات دینا شروع کیں،خواہش پرست ہر جگہ موجود ہوتے ہیں،چنانچہ وہاں بھی تھے ،تو اپنے گرد خواہش پرستوں کو جمع کرنے کےلیے  شراب حال کردی،انہیں بےحیائی کے کاموں کی اجازت دی،محرمات سے نکاح جائز کردیا، بالخصوص بیٹی سے بے حیائی کے  تعلق  کی خوب حوصلہ افزائی کی ،ان تعلیمات نے عیاش  اور امیر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا،لیکن  دیگر شرفاء علاقہ   کو اس پر بہت غیرت آئی،انہوں نے  خود ہی اس کےلیے ایسا بندوبست کیا،ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا،اس میں اسے زہر دیدیا گیا،اوراس زہر سے وہ اپنے انجام کو پہنچا۔یوں یہ فتنہ اختتام پذیر ہوا،اس کے پیروکاروں میں اکثریت مجوسیوں کی تھی،اس نے اپنا مذہب انہی کے عقائد کے گرد گھومتا ہوا متعارف کروایاتھا،اور اس کےلیے شعبدہ بازی  کا سہار لیا،لیکن ایسی شعبدہ بازی کب تک سہارا بن سکتی تھی،بالاخر اس  کے انجام کے ساتھ اس کے پیروکار اس کے دین  کے نہ رہے،بلکہ جو جہاں سے آیاتھا ،وہ واپس وہیں چلا گیا، عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔جنت کا حصول  اور  رسول کریم کی شفاعتِ  اسی سے ہوگی  ۔ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا  بنیادی  عقیدہ ہے،  یہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے۔ یہ محفوظ  دین اب قیامت تک باقی رہے گا۔ جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا مقصد بھی مکمل ہوچکا ہے لہٰذا رسول کریم (ص)  کے بعداب کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش ہے۔  اسی لئے آپ کی رسالت  و نبوت  کے بعد ختم نبوت  کا بھی اعلان کردیا گیا ،سیدنا  محمد کریم (ص) ؐ اللہ کے آخری نبی ہیں‘ آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی اور آپ کی امت آخری امت ہےاس لیے جو بھی کوئی  نبوت کا دعوی کرے گا،کسی نئی شریعت کی بات کرے گا وہ جھوٹا ہوگا۔

تحریر:  (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن)

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران