نبوت کا آٹھواں جھوٹا دعویدار: بیان بن سمعان
آج
ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔
مخلوق کے لیے نبوت و رسالت اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم احسان اور بہت بڑی نعمت
ہے۔ مخلوق کے لیے یہ ایک ایسی عظیم
نعمت ہے کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی کسی نعمت کا
احسان نہیں جتایا لیکن نبوت و رسالت کے
حوالے سے اللہ تعالیٰ نے حسان جتایا ہے ۔سورت آل عمران کی آیت نمبر ایک سو چونسٹھ
میں آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ
عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ۔ (آل
عمران۔164)
’’ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان ہی میں
سے ایک ایسا رسول منتخب کیا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے۔ ان کا تذکیہ
کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت (دانائی) کی تعلیم دیتا ہے۔
جسے
اللہ تعالیٰ نبوت کے منصب سے سرفراز فرماتے ہیں وہ باقی سب لوگوں سے اپنے وقت میں
بلند ، عزت اور شرف والا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں معجزات سے نوازتا اور اپنی
تائید ونصرت ان کے ساتھ شامل کرتا ہے،ان کے امتی اگر ہوں تو وہ ان پر جان فدا کرنے والے اور ان کی سچائی کا دم بھرنے والے ہوتے ہیں۔ایسے
ہی بعض لوگ جو اس منصب سے حسد کرتے یا لوگوں کو اپنے جال میں پھانستے کےلیے پینترے
بدلتے تھے،ان میں سے بھی بہت سے نبوت کے دعویدار بن بیٹھے،یہ اللہ تعالیٰ کا کرم
ہے کہ اس نے پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ نبی
کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔اس لیے ہمیں معلوم ہے کہ جو بھی دعوی کرے گا
وہ جھوٹا ہوگا۔لیکن دعوے کرنے والے اپنی نبوت کے ثبوت کےلیے جادو،کہانت،سرداری اور دیگر نجوم وفنون کو استعمال کرکے لوگوں کو
گمراہ کرتے رہے ہیں،تاریخ میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں ،ان ہی میں سے ایک بیان بن سمعان تھا ۔میں پہلے آپ کے سامنے مغیرہ
بن سعید عجلی کے نبوت کے جھوٹے دعوے کے بارے میں بات کرچکا ہوں،یہ شخص بھی اسی کا
ہم عصر تھا۔اس نے فرقہ بیانیہ کی بنیاد
رکھی ۔ بیان بن سمعان نبوت کا
جھوٹا دعویدار تھا اور کہا کرتا
تھا کہ میں اسم اعظم کے ذریعے سے ہر کام کرسکتا
ہوں۔ ہزار ہا لوگ حسن ظن کے سنہری جال میں پھنس کر اس کی نبوت کے قائل ہو
گئے۔
اس
نے اپنے پیروکاروں کو یہ عقیدہ دیا کہ جیسے
ہندؤوں کے ہاں تناسخ اور حلول
کا عقیدہ ہے ۔ اس کا دعوی تھا کہ میرے جسم میں خداکی روح حلول کر گئی ہے ۔
اس کے پیروکار اس کو اسی طرح خدا کا اوتار یقین کرتے تھے جس
طرح ہندو رام چندر جی اور کرشن جی کو
خدائے بر تر کا اوتار گمان کرتے ہیں۔ بیان اپنے اس دعوی کے اثبات میں کہ ذات
خداوندی ہر چیز میں حلول کرتی ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیتیں پیش کر تا تھا لیکن
ظاہر ہے کہ آیات قرآنی سے اس قسم کا استدلال انوکھا اور عجیب و غریب ہے۔ بیان کا
دعوی تھا کہ مجھے قرآن کا بیان مطلب اس کی تشریح
کو سمجھایا گیا ہے۔ فرقہ بیانیہ کا خیال ہے کہ امامت محمد بن حنفیہ سے ان
کے فرزند ابو ہاشم سے ایک وصیت کی بنا پر بیان بن سمعان کی طرف منتقل ہو گئی۔ فرقہ بیانیہ کے لوگ بیان کے
منصب و مقام کے متعلق اختلاف رکھتے
ہیں۔ بعض تو اس کو نبی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بیان نے شریعت محمدی کاایک حصہ منسوخ کر دیا اور بعض اسے معبود بر
حق خیال کرتے ہیں۔ بیان نے ان سے کہا تھا کہ خدا کی روح انبیا اور ائمہ کے جسموں
میں منتقل ہوتی ہوئی ابو ہاشم عبداللہ بن حنفیہ میں پہنچی۔ وہاں سے میری
طرف منتقل ہوئی۔ یعنی نبوت کے ساتھ ساتھ
خود ربوبیت کا بھی مدعی تھا۔
بیان سیدنا علی
کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ خدا ہیں
۔نعوذ باللہ ۔وہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ
کا ایک جز سیدنا علی کے دادا میں
حلول کر کے ان سے متحد ہو گیا تھا۔ چنانچہ
ان کے اندر وہی قوت الہی تھی جس کی بدولت انہوں نے دره خیبر اکھاڑ دیا تھا۔ حضرت
علی کی شہادت کے بعد وہ جزو الہی محمد بن
حنفیہ کی ذات میں پیوست ہوا۔ ان کے بعد ابو ہاشم عبد اللہ بن محمد کے جسم میں جلوہ
گر ہوا۔ جب وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے تو وہ بیان بن سمعان یعنی خود اس کی ذات کے
ساتھ متحد ہو گیا۔ بیان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آسمان اور زمین کے معبود الگ الگ ہیں۔
تاریخ
طبری کے مطابق بیان حضرت امام زین العابدین کی تکذیب کرتا تھا۔ اس نے حضرت امام
محمد باقر جیسے جلیل القدر ہستی کو بھی اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت دی تھی ۔ایک خط
اس نے ان کی طرف بھیجا تھا اور لکھا تھا کہ
تم میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گئے اور ترقی کرو گے۔ تم نہیں
جانتے کہ خدا کسے نبی بناتا ہے۔ امام محمد باقر
یہ خط پڑھ کر بہت ناراض ہوئے ۔ اس کے بعد امام محمد باقر
اور جعفر صادق نے بیان کے حق میں بد دعا کی۔ جب خالد بن عبد اللہ قسری عامل
کوفہ نے مغیرہ بن سعید عجلی کو گرفتار کیا تھا۔ بیان بھی اس وقت ایک سو انیس ہجری میں
گرفتار کر کے کوفہ لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ
اس کے سامنے اپنے انجام کو پہنچ
چکا تو خالد نے بیان کو حکم دیا کہ سرکنڈوں کا ایک گٹھا بغل میں لے
لے۔ خالد نے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم ہر
کام میں حماقت سے کام لیتے ہو۔ کیا تم نے مغیرہ کا حشر نہیں دیکھا؟ اس کے بعد خالد
نے بیان کو کہا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تم
اپنے اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو شکست دیتے
ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیرے جان لینے لگا ہے۔ شکست دے کر اپنے آپ کو بچالو مگر وہ جھوٹا تھا لب
کشائی نہ کر سکا۔ آخر مغیرہ کی طرح اس کو عبرت ناک سزا دی گئی وہ اپنے انجام کو
پہنچ گیا ۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری اور اس کے ایمان کا تقاضہ ہے۔، آخرت میں حصول
جنت اور شفاعتِ رسول ؐ کا ذریعہ ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے
یہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے۔د ین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین
اب قیامت تک باقی رہے گا۔ جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا مقصد
بھی مکمل ہوچکا ہے لہٰذا آنحضرتؐ کے بعداب کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش
ہے۔ اسی لئے آپ کی رسالت و نبوت
کے بعد ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا
گیا اور نبوت و انبیاء کا جو سلسلہ حضرت آدم ؐ سے شروع ہوا تھا‘ وہ آنحضرتؐ پر ختم
کردیا گیا۔ حضرت محمد مصطفی ؐ اللہ کے آخری نبی ہیں‘ آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی
نہیں آئے گا۔ قرآن کریم وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں
ہوگی اور آپ کی امت آخری امت ہے۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں