نبوت اور خدائی کا اٹھارواں جھوٹا دعویدار:ابو طاہر قرامطی
ہم
آپ کے سامنے کذابوں اور دجالوں کے تعارف
پر مبنی ایک سیریز پیش کر رہے ہیں،آج اس سیریز کی آٹھارویں تحریر آپ کے سامنے ہے
،ان سب کا تعارف اس لیے کروا رہے ہیں ،تاکہ آپ جان لیں کہ تاریخ میں
کیسے کیسےجھوٹے اور کذاب گزرے ہیں،وہ صرف نبوت کے دعوے پر ہی نہیں رکے بلکہ خدائی کے بھی دعویدار بن بیٹھے تھے۔انہی میں سے ایک ابو طاہر قرامطی
ہے،جس کا آج ہم آپ کے سامنے تعارف رکھنے
جا رہے ہیں۔ یہ وہ کذاب شخص ہے جس نے مسلمانوں کو تاتاریوں سے بھی زیادہ نقصان
پہنچایا،اس کا زمانہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز کا ہے،اس کے باپ کا نام ابو سعید
قرامطی تھا،اس کا کام تو اس کے خادم نے ہی تمام کردیاتھا، اس کے بعد اس کے بیٹوں میں
تخت کی جنگ شروع ہوگئی،اس جنگ میں ابو
طاہر نے اپنے بڑے بھائی کو شکست دی ،اور باپ کا جانشین بن گیا۔یوں ہجر،احساء،قطیف،طائف اور بحرین کی حکومت اس کے ہاتھ آگئی ،ایک دم سے اتنی حکومت ہاتھ میں
کیا آئی،یہ تو اپنے آپ سے باہر ہوگیا،اس
نے سمجھا کہ یہ تو میں نےخدائی ہاتھ مارا
ہے،نعو ذ باللہ،اس لیے اتنا بڑا علاقہ میرے
زیر نگیں آگیاہے،اس کے بعد اس نے نبوت کی بجائے سیدھاخدا ہونے کا دعوی کردیا،اس
نے خود کو خدا کا اوتا ر قرار دیا اور اسی طرح رویہ رکھنے لگا۔ قرامطی حکومت کا
تخت سنبھالنے کے بعد اس نے بصرہ پر حملہ
کیا،خلافت عباسیہ اس وقت زبوں حالی کا شکار تھی،اس کے مقامی گورنر کو بھی اس نے شکست دیدی،اس فتح نے اسے مزید
فرعوینیت میں غرق کر دیا،اس کے بعد اس نے سوچا کہ اسے مسلمانوں کے مقامات مقدسہ پر ہی قبضہ کر لینا
چاہیئے،تاکہ امت مسلمہ پر حکومت کا خواب پورا ہو،چنانچہ یہ تین سو سترہ ہجری میں مکہ مکرمہ کی طرف متوجہ ہوا ۔حج کا موسم
تھا،حاجی وہاں پہنچ چکے تھے یا حج کے بعد وہاں سے واپس جانے کی تیاری میں تھے،یہ دجالی ابو طاہر اس دوران اپنے گھوڑے پر ہی مسجد حرام میں داخل
ہوا،اس نے وہیں شراب منگوائی اور مسجد میں
گھوڑے پر بیٹھ کر شراب پینے لگا۔ مسجد میں
کچھ لوگ موجود تھے، انہوں نے اسے روکنا چاہا،کچھ
حاجی تو زبردستی روکنے کےلیے حالت احرام میں ہی اس کی طرف آئے
۔ بیت اللہ چونکہ امن کی جگہ تھی اس لیے وہاں سب حاجی نہتے تھے،لیکن ابو طاہر
اپنے مسلح لشکر کے ساتھ وہاں آیا تھا،اس
نے اپنے گماشتوں کو اشارہ کیا،انہوں بیت اللہ میں
حجاج پر حملہ کردیا،حاجیوں کا بدترین قتل عام کیا۔ ابو محلب اس وقت کا مکہ
کا گورنر تھا،لیکن بد قسمتی سے اس کے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ قرامطیوں کا
مقابلہ کرسکے۔وہ پھر بھی اپنے چند مسلح
سپاہیوں کے ساتھ ابو طاہر کے پاس پہنچا اور اُسے اس قتل عام سے باز رکھنے کی کوشش
کرنے لگا،لیکن اس نے ان پر بھی حملہ کردیا،وہ مٹھی بھر سپاہی تھے،جب تک زندہ
رہے ،بہادری اور جوانمردی سے لڑے لیکن وہ
سب شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد اس نے غلاف
کعبہ کی توہین کی،اس نے گیارہ دنوں تک
حدود حرم میں قتل وغارت گری کی اور پھر وہ
وہاں سے واپس اپنے علاقے مین چلاگیا،اور
جاتے ہوئے حجر اسود ساتھ لے گیا۔اس کی قتل وغارت کے مقاصد بھی مورخین نے لکھے ہیں کہ اس
دجال نے اپنے علاقے میں دارالہجرت کے نام سے ایک عمارت بنوائی تھی،اس کی
کوشش تھی کہ مسلمان یہاں کا طواف کریں،اسی لیے اس نے بیت اللہ کو تباہ کرنے کی غرض
سے وہاں حملہ کیا تھا،لیکن کچھ نشانیاں دیکھیں تو بیت اللہ کی عمارت تو نہ گرا
سکا،البتہ قتل وغارت گری کرکے واپس ہوگیا۔اس
کے بعد اس نے حاجیوں کو لوٹنا شروع کردیا،ان کی ڈکیتیوں کی وجہ سے دس سال تک بیرونی حاجی حج نہ کرسکے،بالاخر ایک
بھتہ طے کیا اور اس کے بعد حجاج کو حج کی اجازت دینے لگے،اس وقت وقتی طور پر خلافت اسلامیہ کمزور ہوچکی تھی،ایسے
فتنے زور پکڑ چکے تھے،اس لیے ایسے دجالوں کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع مل گیا۔ایسا
شاید اس لیے بھی ہوا کہ اس وقت کچھ عرصے کےلیے مسلمانوں کا ایمانی جذبہ ماند پڑ چکا تھا۔اس لیے چند ہزار قرمطیوں کے جتھے نے انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔اس کے بعد
گفت وشنید کے ذریعے حجر اسود دوبارہ ان سے
واپس لے لیا گیا،اور اپنے اپنی اصل جگہ نصب ہوگیا،اس کے کچھ عرصہ بعد ابو طاہر کو چیچک کا مرض
لاحق ہوا،وہ اسی سے اذیت ناک موت مر گیا ،لیکن اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا یہ فتنہ جاری رہا۔اس کے عقائد میں خواہشات پرستی
کو فوقیت تھی،اس لیے خواہش پرست عیاش اسی کی تعلیمات کو
اپنے لیے سود مند سمجھتے تھے،انہیں
وہی تعلیمات لبھاتی تھیں۔اس لیے اس کے بعداس کے جانشین مقرر ہوتے رہے لیکن وقت کے
ساتھ خلافت اسلامیہ مین پھر طاقت آگئی،غیرت مند مسلم جرنیل پیدا ہوگئے،انہوں نے
نے انہیں ان علاقون سے بے دخل کردیا،یہ وہاں سے بھاگے،تو مسلم حکومت کی سرحدی علاقے ملتان کی طرف آگئے،مقامی
راجون سے ساز باز کرکے یہاں پناہ حاصل کی،پھر اتنے مضبوط ہوئے یہاں ا نہوں نے اپنی ایک سلطنت قائم کرلی،یہاں
سے خلافت اسلامیہ کی سرزمینوں میں کاروائیوں ڈالتے اور ملتان میں آکر پناہ لیتے،مقامی راجے ان کے حمایتی
ہوتے ۔ قرامطیوں کی آخری حکومت ملتان میں ہی بنی جہاں یہ بے حد طاقتور ہوگئے تھے۔
ملتان میں رقص و سرود کی محفلیں ہوا کرتی تھیں اور شراب و شباب کے دور چلا کرتے
تھے، کیونکہ قرامطیوں کے عقائد میں جزا و سزا کا کوئی تصور نہیں تھا۔یہاں پر میں آپ
کو ایک اور تاریخی حقیقت بتاتا چلوں
کہ برصغیر پر کبھی غزنوی،کبھی غوری اور کبھی کوئی دوسرا مسلم جرنیل کیوں حملے کرتا
رہا،اصل میں ہوتا یہ تھا کہ یہاں کہ لوکل حکمران راجے قرامطیوں کی پناہ گاہ بن چکے تھے،یہ لوگ مسلم علاقوں میں فساد پھیلاتے اور پھر ملتا ن کے علاقے میں آکر
پناہ لیتے،ان کی اسی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر جب خلافت کچھ مضبوط ہوئی تو انہوں
نے اپنے کئی جرنیل یہاں بھیجے تاکہ وہ یا
تو مقامی حکومتوں کو اس بات پر قائل کریں کہ قرامطی ان کے حوالے کر دیئے جائیں یا
ان کے خلاف ان کا ساتھ دیا جائے،لیکن یہاں کے مقامی سردار قرامطیوں کے مددگار بن
جا تے،کیونکہ عیاشی میں سب کی سانجھ تھی،حتی کہ ان کی سلطنت بھی یہاں قائم کروادی،اس لیے ان کا پیچھا کرتے ہوئے بھی غزنوی اور کبھی غوری یہا ں برصغیر میں
پہنچے ،انہوں نے پھر جہاں قرامطیوں کا
خاتمہ کیا وہیں قرامطیوں کے مددگار راجاؤں کی بھی خوب کلاس لی،افسو س ہے کہ ہندو اور انگریز تاریخ
دانوں کی لکھی ہوئی تاریخ کا مطالعہ کرکے
آج بہت سے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کیا
جاتا ہے اور ان مسلم جرنیلوں کو لٹیرا اور ڈاکو کے خطابات دیئے جاتے ہیں۔حالانکہ یہ سب مسلم جرنیل خلافت اسلامیہ میں فساد پھیلانے والے قرامطیوں کا پیچھا کرنے یہاں آتے رہے،آپ نے
سنا ہوگا کہ یہ سب مسلم جرنیل افغانستان کے راستے سے آتے اور
ملتان اور بہاولپور کی طرف رخ رکھتے تھے،یہاں
زبردست لڑائیاں لڑنے کے بعد واپس چلے جاتے تھے،اصل مین وہ یہاں قرامطیوں کا
صفایا کرنے ہی آتے رہے ہیں۔تاریخ میں
لکھا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے مُلتان پر حملہ کیا اور خود ایک سپاہی کی طرح بے
جگری سے لڑا۔ سلطان نے اپنی تلوار سے
اتنے قرامطی قتل کیے کہ اُس کے ہاتھ تلوار کے دستے پر جم گئے تھے،دستے سے ہاتھ کو
نکالنے کےلیے گرم پانی کو استعمال کیاگیا،تب کہیں جاکر ہاتھ دستے سے نکلا ۔اس
طرح ملتان کی گلیوں میں موجود بیت اللہ کی
حرمت کو پامال کرنے والے جتھے کے بعد کے افراد
سے وہ بدلہ چکایا گیا جو انہوں نے
وہاں فساد پھیلایاتھااور اس پورے خطے سے ان کا صفایا کردیاگیا۔ جب صفایا ہوگیا تو
پھر یہ فتنہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوگیا۔یہ تھی
ابوطاہر قرامطی اور اس کے گروہ کا تعارف اور ان کی ریشہ دوانیاں کی تاریخ جسے آپ کے سامنے پیش کیا ،کیا اچھا
لگا ،کیا مزید اچھا دیکھنا چاہتے ہین ،اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔
تحریر : (ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں