نبوت کا چھبیسواں جھوٹا دعویدار : بایزید روشن جالندھری
آج
ہم نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے حوالے سے اگلی تحریر آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کم وپیش ایک لاکھ چوبیس
ہزار انبیاء مبعوث فرمائے ،ان میں تین سو کچھ اوپر رسول تھے ،یعنی جن پر اللہ
تعالیٰ اپنی شریعت بھی نازل فرمائی ، تاکہ وہ
اپنی قوم کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں ، اور انہیں شیطانی ہتھکنڈوں سے بچائیں ۔اللہ تعالی نے سیدنا رسول کریم (ص) کو آخری
رسول بناکر بھیجا اور قیامت تک کے انسانوں
ا ور جنوں کیلئے اسوہ حسنہ قرار دیا۔ لیکن انسانیت کو راہ راست سے گمراہ کرنے کیلئے شیطان نے اپنی چالیں مسلسل چلی ہیں ،
مختلف لبادوں میں انسانوں کو گمراہ کرنے
کا سامان کیا ہے۔ تاریخ اسلام میں کئی ایسے
لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے
دنیا کو حیران کیا اور پھر خود نبوت کا دعوی کردیا۔انہی میں سے ایک بایزید ابن عبد
اللہ انصاری ہے۔یہ نوسو اکتیس ہجری میں پنجاب کے ضلع جالندھر میں پیدا ہوا،نثار
فتحی نے اپنی کتاب بائیس جھوٹے نبی میں لکھا ہے کہ یہ بڑا
عالم اور صاحب تصنیف تھا۔مشکل سے مشکل باتیں آسان انداز مین سمجھانے میں
مہارت رکھتا تھا،اسی بناپر لوگ اس کی علمیت اور کمالات کے معترف ہوگئے
تھے ۔ اس کے نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ہمایوں بادشاہ کے بیٹے مرزا محمد کلیم نے اپنے دربار میں علماء سے اس کا مناظرہ کرایا
تھا،وہ اس وقت کابل کا صوبیدار تھا۔ کابل کے علماء علوم فلسفہ سے ناواقف تھے،بایزید
نے فلسفیانہ بحثوں کی مدد سے انہیں لاجواب
کردیا، اس کے بعد ہمایوں کا بیٹا بایزید کی علمیت اور زور کلام سے اتنا مرعوب ہوا
کہ خود ہی اس کا معتقد ہوگیا۔ابتدا میں یہ شخص ہر وقت یاد الہی میں مشغول رہتا اور
تقوی پرہیز گاری کی زندگی گزارتا تھا۔ اس وقت اس کے رشتہ داروں میں ایک صوفی شخص تھا،بایزید اس کا مرید ہونا چاہتا تھا لیکن اس کے والد نے
کہا کہ میرے لیے یہ بات بڑی بےعزتی کی ہے کہ تم اپنے ہی عزیزوں میں سے ایک غیر
مشہور آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ بہتر یہ ہے کہ
باہر کے کسی بڑی پیر کے ہاتھ پر بیعت کرو،لیکن اس نے سوچا کہ وہ
خود ہی کیوں نہ ایسا بن جائے جس کی لوگ بیعت
کریں۔نتیجہ یہ ہوا کہ بایزید اللہ والوں میں سے تو نہ ہو سکا لیکن شیطان کی جال میں
آگیا۔وہ اپنی ریاضت وعبادت سے بہک کر اپنے آپ کو کچھ اور ہی خیال کرنے لگا اور یہ خیال یہاں تک
بڑھا کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگا ، لوگوں سے کہتا تھا کہ جبریل امین میرے پاس اللہ
تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ اس نے
ایک کتاب خیر البیان چار زبانوں عربی، فارسی، ہندی اور پشتو میں لکھی اور اس کو
کلام الٰہی کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ میں نے اس میں وہی کچھ لکھا
ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کیا ہے۔ بایزید کا باپ عبداللہ جو ایک راسخ العقیدہ
مسلمان تھا ،بیٹے کی اس گمراہی پر بہت غضبناک ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہوکر بایزید کو ختم کرنا چاہا لیکن بایزید
کو زخمی ہوگیا،مگر مرنے سے بچ گیا،پھر
وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا اور افغانستان میں کے علاقے ننگر ہار پہنچ گیا۔جب وہاں کے علماء کو بایزید کی گمراہی کا علم ہوا
اور وہ جان گئے کہ یہ نبوت کاجھوٹا دعویدار ہے تو وہ سب اس کے خلاف متحدہ
ہوگئے،چنانچہ وہاں اس کی دال نہ گلی اور یہ
وہاں سے بھی بھاگا اور پشاور پہنچ گیا۔وہاں غوریا خیل قبائل کو اپنی گمراہی کا نشانہ بنایا،انہیں
گمراہ کرنا شروع کردیا، یہاں اسے کسی عالم دین کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ ان میں
علماء موجود نہ تھے،اس لیے یہ وہاں کامیاب
ہونے لگا ۔وہاں بایزید نے اپنا تسلط قائم
کرلیا، اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار بھی
گرم ہوگیا۔س نے لوگوں سے کہا کہ مجھے غیب سے آواز آئی ہے کہ سب لوگ آج سے
تمہیں روشن پیر کہا کریں ، چنانچہ اس کے بعد اس کے پیروکار اسے اسی لقب سے یاد کرتے تھے ۔ لیکن عام
مسلمانوں میں وہ تاریک پیر اور پیر ظلالت کے
نام سے مشہور تھا۔ ایک عالم دین نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی،اس
نے اس کے ساتھ مناظرہ بھی کیا،بایزید نے مناظرہ میں اس سے شکست بھی کھائی لیکن اس کے مرید اندھے معتقد اور طاقتور تھے ،اس لیے اس عالم دین
کی ساری کوششیں بیکار ہوگئیں۔ جب بایزید
کی جھوٹی نبوت اورلوگوں کی گمراہی کا حال کابل کے گورنر محسن خان تک پہنچا، تو وہ خود پشاور میں اس کی جائے مقام پر آیا۔ اور بایزید کو گرفتار کرکے کابل لے گیا ،کافی عرصہ یہ اس کی قید میں
رہا،اس کے بعد یہ کسی وجہ سے رہا ہوگیا،رہا ہونے کے بعد یہ پھر پشاور پہنچ گیا
اور اپنے مریدوں کو جمع کرکے آس پاس کے
پہاڑوں میں جاکر مورچہ بند ہوگیا۔پھر
اکبر بادشاہ سے بغاوت کرکے اعلانیہ
اس کا حریف بن گیا ۔ جب بایزید کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اکبر نے ایک
لشکر اسکی سرکوبی کے لیے روانہ کیا مگر وہ
شکست کھا گیا،اس کے بعد اس کے حوصلے بلند ہوگئے ،یہ لوگوں پر ظلم وستم کرنے لگا،اس سے اس کے پیروکار بھی اس سے منتفر ہونے لگے،چنانچہ
اکبر نے دوبارہ بڑا منظم لشکر اسکی لڑائی
کے لیے بھیجا،تب جاکر کہیں اسے شکست ہوئی
اور یہ افغانستان کی طرف بھاگ گیا۔افغانستان
کے سلسلہ کوہ میں بھیتر پور کی پہاڑیوں میں اسکا آخری وقت گزرا اور اسی علاقے میں
اس کی قبر واقع ہے۔اس نے اپنی شریعت میں
کئی طرح کے احکامات دے رکھے تھے ، اس نے اپنے پیروکاروں سے غسل جنابت ختم
کر دیاتھا ۔اس نے یہ بھی حکم دیاہوا تھا
کہ ہوا لگنے سے بدن خود بخود پاک ہو جاتا
ہے کیونکہ چاروں عناصر آگ ، ہوا ، پانی اور مٹی پاک کرنے والے ہیں،اس کا یہ بھی
کہنا تھا کہ جو شخص مجھ پر ایمان نہیں
لائے گا وہ مسلمان نہیں ہے
اور ایسے شخص کا ذبیحہ حرام ہے۔نماز کے
بارے میں اس کا کہنا تھا کہ قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں۔ جدھر چاہو منہ کر کے
نماز پڑھ لو۔وراثت کے بارے میں اس کے احکامات تھے کہ مسلمانوں کی میراث ان کے
وارثوں کی نہیں بلکہ میرے مریدوں کی ہے۔اس کی
تعلیمات میں یہ بات بھی شامل تھی
کہ جو لوگ مجھ پر ایمان لائیں ،صرف وہی
زندہ ہیں باقی سب مسلمان مردہ ہیں اور مردوں کو میراث نہیں ملا کرتی۔ ایسے مردہ
مسلمانوں کو قتل کر دینا واجب ہے۔یہ سب گمراہ کن تعلیمات اسی کی تھیں،چنانچہ
افغانستان کی پہاڑیوں میں یہ مرا ۔اس کے مرنے کے بعد اس کا فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔اور مسلمانوں
کو اس کے شر سے نجات ملی۔
(تحریر :ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )
ایک تبصرہ شائع کریں