نبوت کا ستائیسواں جھوٹا نبی: میر محمد حسین مشہدی المعروف نمود

نبوت کا ستائیسواں جھوٹا نبی: میر محمد حسین مشہدی المعروف نمود


نبوت کا ستائیسواں جھوٹا نبی: میر محمد حسین مشہدی المعروف نمود

قرآن کریم اور فرامین نبویہ  کی وجہ سے  امت مسلمہ کا یہ یقینی عقیدہ  ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ (ص) اللہ تعالیٰ کے آخری  نبی ہیں ،آپ  خاتم النبیین  ہیں ،آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔اس کی خبر بھی آپ (ص) نے ہی دی ،آپ نے فرمایا: لا نبی بعدی،یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے   ۔ آپ کی شریعت بھی آخری شریعت ہے، اس کے بعد کوئی شریعت نہیں آئے گی۔لہذا آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا ، وہ ارشاد نبوی (ص)کے مطابق دجّال ا ور کذّاب ہوگا۔ایسے ہی کئی کذابوں کا ہم آپ  کو پہلے تعارف کروا چکے ہیں ،اسی تسلسل کے تحت آج بھی ایک کذاب کا تعارف  آپ کے سامنے رکھیں گے،تاکہ نبوت  کے جھوٹے مدعیان کی چالیں اور گمراہ کرنے کے طریقوں سے آپ واقف ہوسکیں۔ایسے کذابوں میں سے ایک کذاب میر محمد حسین مشہدی تھا،یہ ایران کا رہنے والا  اور ایران کے شہر مشہد کا باسی تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے علم  کی نعمت سے بھی سرفراز کیا ہوا تھا،ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دور میں فکر معاش اسے  افغانستان  لے آئی ،وہاں کابل پہنچا تو وہاں کا  حاکم امیر خان مقرر کیا گیا تھا،اس کی اچھی شہرت ایران میں بھی پھیلی ہوئی  تھی،چنانچہ یہ اس سے ملا،اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس نے اسے اپنے ملازم رکھ لیا،یہ اس کا بہت ہی مطیع اور فرمانبردار تھا،اور اس کے معاملات کو خوب اخلاص سے سر انجام دینے کی مشق کرتا تھا،امیر خان  کی اپنی  کوئی اولاد نہیں تھی،اس نے کسی ملازم کی لڑکی اپنی منہ بولی بیٹی بنائی ہوئی تھی،جب وہ جوان ہوئی ،تو یہ اس وقت امیر خان  کا خاص ملازم بن چکا تھا،چنانچہ اس نے اس کی صلاحیت ، فرمانبرداری اور  شرافت کا ظاہری لبادہ دیکھ کر اپنی منہ بولی بیٹی کی شادی اس سے کردی،خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے کچھ عرصہ بعد امیر خان کا انتقال ہوگیا،اب یہ اس کی بیٹی کا شوہر تھا،چنانچہ  سارے اختیارات  اس کے پاس آگئے،ایک دم سے اتنے اختیارات  آنے پر  اس کا دماغ خراب ہونے لگا،اختیارات کے استعمال اور ملازمین کو اپنے حکم پر چلانا اس  کا سب سے بہترین مشغلہ ہوگیا اور یہ اسے انجوائے کرتا،لیکن دوسری طرف  اس کا علم اس کی راہ میں آتا،ضمیر اس کی وجہ سے کچوکے لگاتا ،خواہشات نفس کی پیروی  مذہبی تعلیم کی بنیاد پر   نہیں کر سکتا تھا،چنانچہ  اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کی طرف  قدم بڑھانا شروع کردیئے۔اس کا ایک شاگرد خاص تھا،جس کا نام رشید تھا اور اسے منشی  زادہ دوجی یار کے لقب سے پکارا جاتا تھا،اسے اس نے  ساتھ ملایا،اور ایک نئی کتاب لکھی ،جس میں فارسی کے متروک اور ناموس الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا،تاکہ ہر ایک کو صحیح مفہوم  سمجھ نہ آسکے ،اس میں اس نے کچھ الفاظ عربی اور فارسی کو مکس کرکے بھی تخلیق کیے ،تاکہ اس کا علمی رعب قائم کرنے میں آسانی ہو،چنانچہ جب یہ کتاب لکھی گئی تو اس کے بعد اس نے اس کا نام  آقوزہ مقدمہ رکھ دیا،اور اس کی اشاعت کے بعد  کہنا شروع کردیا کہ یہ کتاب میں نے اللہ کی طرف سے وحی آنے کے بعد لکھی ہے ،میں  محمد (ص) کا بیگو گیت ہوں،بیگو گیت نبوت اور امامت کا درماینی درجہ ہے،ہر نبی کے کئی بیگو گیت ہوتے ہیں ،میں بھی محمد رسول اللہ (ص) کا بیگو گیت ہوں،نبی کریم (ص) کے نو بیگو گیت ہونگے،اور میرے پاس وحی آتی  ہے۔اپنے ماننے والوں کو اس نے فربودی  کہنا شروع کردیا، اس کے پیروکاروں کا یہی نام پڑھ گیا۔ اس نے سات دن   جشن کے طور پر مقرر کیے ہوئے تھے،ان  کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ اس دن میرے اوپر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تھی، ایک جگہ کو اس نے بڑا اہم مقام بنایا ہوا تھا،اس کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ یہ میری غار حرا ہے۔یہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی،اس نے اپنی زیارت  کو نماز قرار دیتا تھا،دن میں تین بار اس کی زیارت کرنا ہوتی تھی ،گویا تین نمازیں ہوگئیں،اور اس نے نماز کے متبادل کے طور پر یہی عمل اپنے مریدوں کو بتایا ہوا تھا،اس نے اپنے چار خلیفہ  بھی مقرر کیے ہوئے تھے،اس کی جھوٹی نبوت کا دائرہ اور اثرات دہلی تک پھیل گئے تھے۔اس کی شعبدہ بازیوں سے کابل کے صوبیدار  اس کے معتقد ہوگئے تھے،اس کا بیٹا اس کا خاص مرید بن گیاتھا۔دہلی میں  فرخ    حاکم بنا تو وہ اس کا خاص مرید تھا،اس نے حاکم مقرر ہوتے ہی اس کے آستانے پر حاضری دی تھی،اس کے بعد  محمد شاہ حاکم دہلی بنا تو اس کا ایک وزیر محمد امین تھا،اسے جب اس کی  دجالیت کا علم ہوا تو اس نے اس کی سر کوبی کےلیے لشکر بھیجا،لیکن کرنا خدا یہ ہوا کہ جب اس کا لشکر اس کی سر کوبی کےلیے کابل پہنچا تو  محمد امین کو قولنج کا اٹیک ہوگیا،اس اٹیک سے ہی وہ چل بسا،لیکن اس اٹیک اور اس کی موت کو اس  نبوت کے جھوٹے دعویدار نے اپنی شہرت کےلیے خوب استعمال کیا،پہلے میر محمد حسین نمود بھاگنے کی کوشش کر رہاتھا لیکن اب وہ پھر شیر ہوگیا،دہلی کے دربار میں فرخ کے دور سے ہی اس کے کئی مرید اب بھی کام کر رہے تھے،وہ مسلسل خبریں اس تک پہنچا رہے تھے،چنانچہ انہوں نے ہی اس تک یہ خبر بھیج دی کہ  محمد امین پر جو قولنج کا حملہ ہوا  ہے ،اس سے وہ  بچ نہیں  سکے گا،چنانچہ اس نے اس کی موت کا خوب چرچا کیا،جاہل لوگوں پر اس کا بہت اثر ہوا،چنانچہ وہ   دھڑا دھڑا اس کا مذہب اختیار کرنے لگے اور محمد امین کی موت کو اس کا معجزہ  سمجھنے لگے۔ محمد امین کی فوج بھی کابل سے  واپس آگئی ،اس پر بھی اس کا بہت اثر  ہوا۔وہ اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کی بددعا سمجھتے رہے کہ اس کی بددعا کی وجہ سے  وہ مرا ہے اور اس سے پہلے اس پر قولنج کا حملہ ہوا ہے۔ اس واقعہ سے اس کی تحریک میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا ہوگیا اور اس کی عظمت کے لوگ گن گانے لگے، اس کرامت کا دہلی میں بڑا چرچا ہوا۔ محمد امین کی موت کے تین سال بعد میر محمد حسین بھی فوت ہوگیا اور اس کا بیٹا  جانشین بن گیا۔جب اس کا بیٹا جانشین بنا تو  اس نبوت کی جھوٹی دعویداری سے مریدوں کے نذرانوں کی صورت میں جو مال اکٹھا ہوتا ہے،اس پر   میر حسین کے بیٹے اور اس کے شاگرد خاص  منشی رشید جس نے   اس کی نبوت چمکانے کےلیے کتاب  لکھی تھی اور اس کی  کمائی میں حصے دار تھا،اس میں  شدید اختلاف ہوگیا،بیٹا اسے  دجالی کمائی سے کم حصہ دینا چاہتا تھا اور وہ زیادہ کا طلب گار  تھا،بس اسی کشمکش نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا سخت دشمن کردیا،منشی رشید نے جب دیکھا کہ  جسے میں نے  بیگوت بنانے میں کردار اداد کیا،اب اس کا بیٹا ہی اس کی دجالی گدی  پر قابض ہوگیا ہے  اور اسے اس کی  منشا کے مطابق  حصہ بھی نہیں دے رہا تو  اس نے اس سارے  بھانڈے کو پھوڑنے کا فیصلہ کیا،چنانچہ  جو دن میر محمد حسین دجال نے جشن کے مقرر کیے ہوئے تھے،ان دنوں میں  اس کے دربار پر  فربودیوں کی بڑی تعدا دجمع تھی،ان کے علاوہ بھی  بہت سے لوگ وہاں شغل میلے کےلیے آئے ہوئے تھے،ایک سٹیج بھی لگا ہوا تھا،وہاں ہی یہ منشی رشید بیٹھا ہوا تھا،لوگ پہلے بھی اس سے واقف تھے اور اسے میر محمد حسین  کے دست خاص کی حیثیت سے جانتے تھے،چنانچہ اس دوران  منشی رشید اٹھا اور ایک تقریر کی جس میں ا س نے  محمد حسین المعروف نمود کے خود ساختہ مذہب اور دعویٰ نبوت کی ساری سازشیں اور عیاریاں  لوگوں کے سامنے ظاہر کردیں اس میں جو اس کا اپنا کردار تھا ،وہ بھی لوگوں کو بتادیا۔ اسی تقریر کے بعد  مجمع سے ہزاروں لوگوں نے  میر محمد حسین کی نبوت کا انکار کیا اور دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے،اس کے بعد اس کا خود ساختہ دین بھی ختم ہوگیا اور یہ فتنہ ہمیشہ کےلیے اپنے انجام کو پہنچا۔

(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران