مہدویت اور نبوت کا اٹھائیسواں جھوٹا دعویدار: محمد جونپوری

مہدویت اور نبوت کا اٹھائیسواں جھوٹا دعویدار: محمد جونپوری


مہدویت اور نبوت کا اٹھائیسواں جھوٹا دعویدار: محمد جونپوری

قیامت سے قبل سیدنا حضرت عیسٰیؑ کا نزول اور حضرت امام مہدیؑ کا ظہور مسلمانوں  کے عقائد میں شامل  ہے ۔ قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق ہم ان دونوں بزرگوں کی تشریف آوری پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن ان بزرگوں کے نام پر امت میں فتنے کھڑے کرنے کی جو روایت صدیوں سے جاری ہے وہ بھی خاصا پریشان کن مسئلہ بنی ہوئی ہے، سینکڑوں افراد نے مختلف ادوار میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو اس عنوان سے اپنے گرد جمع کرنے کی کوشش کی، ایران کے بہائیوں، پاکستان کے قادیانیوں اور امریکہ کے نیشن آف اسلام کا پس منظر یہی ہے اور گوہر شاہی اور شہباز احمد جیسے طالع آزماؤں نے بھی اپنے اردگرد لوگوں کو جمع کرنے کے لیے یہی ڈرامہ رچایا۔ حالانکہ سیدنا رسول کریم(ص)  کی صحیح اور صریح احادیث مبارکہ میں سیدنا  عیسٰیؑ اور  امام مہدیؑ کی علامات اور نشانیاں اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ اس سلسلہ میں کسی ابہام یا اشکال کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا لیکن شیطانی پھندے اس قدر سحر آفرین ہوتے ہیں کہ اچھے خاصے انسانوں کی عقل پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔آج ہم ایسے ہی ایک جھوٹے دجال کا تعارف آپ سے کروانے جارہے ہیں،جس نے مہدی ہونے اور نبی ہونے کا دعوی کیا تھا،تاریخ میں اسے سید محمد جونپوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔سید محمد جونپوری  چودہ سو تینتالیس عیسوی میں  جونپور میں پیدا ہوا۔ اس کے والد  کا نام سید خال اور والدہ  کا نام بی بی آخا تھا  ، لیکن  جب سید محمد نے مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ خیال گزرا کہ حدیث میں مہدی کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ آیا ہے ،پھراس  نے اپنے والدین کا نام تبدیل کر کے حدیث کے پیشین گوئیوں  کے مطابق کر لیا ۔  اپنے والدین کے نام تبدیل کروانے کے بعد جب وہ ان ناموں سے مشہور ہو گئے تو مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ بظاہر اس کا مقصد یہی تھا  کہ ان ناموں کو نبی اکرم (ص) کے والدین کے ناموں جیسا بنا دیا جائے تاکہ حدیث کی بعض پیشین گوئیوں پر فٹ آسکے۔ اس  نےاپنے مریدوں کے لیے اپنا کلمہ لا الہ الا اللہ نور پاک محمد مہدی رسول اللہ  بنایا ہوا تھا،اس کی مذہب میں نماز نہیں تھی، روزے کا طریقہ بھی اس نے اپنا الگ بنایا ہوا تھا،حج کےلیے مکران کی ایک پہاڑی  کوہ مراد کا طواف کافی تھا،اس کے  پیروکار ہر سال وہیں جاکر  حج کیا کرتے اور کرتے ہیں۔ اس کے مریدوں کا عقیدہ یہ بھی  بن گیا تھا کہ سید محمد جونپوری نبی آخرالزمان ہے، وہ زندہ ہی رہے گالیکن  ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہوگا۔قرآن مجید کی وہی تفسیر  معتبر ہوگی  جو اس کے شاگر د محمد اٹکی کے واسطے سے ہوگی،نماز روزہ،حج، زکاۃ ،سب اسلامی عبادات اس نے منسوخ کر دی تھیں،ساری عبادات کے قائمقام ذکر کو کردیاتھا،کوہ  مراد کو حج کا مقام قرار دیدیا،اس کے پیروکار آج بھی بلوچستان میں موجود ہیں،اسے ذکری  یا مہدوی فرقہ کے نام سے جانا جاتا ہے،سندھ کے عوام سید محمد جونپوری کو  میراں سائیں  اور مکران ، قلات  اور ایران کے ذکری نور پاک کے لقب سے اسے پکارتے ہیں،یہ جونپور چھوڑ کر مختلف علاقوں میں گشت کرتارہا  ۔ پھرتا پھراتا ہی حج کےلیے  مکہ مکرمہ بھی گیا،نوماہ وہیں رہا اور پھر ایک دن  رکن یمانی  اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ میری ذات وہی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور رسول کریم  (ص) نے اور گزشتہ انبیاء نے جس کی آنے  کی خبر دی تھی ،وہ  مہدی آخر الزماں  میں ہی ہوں۔ شیخ   محمد اکرم نے رودِ کوثر  میں لکھا ہے:کہ نوسو ایک ہجری   میں اس نے حج کیا اور مکہ معظمہ میں بھی مہدویت کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد واپس ہندوستان آیا۔ سب سے پہلے احمد آباد(گجرات) میں داخل ہوا،پھر موجودہ پاکستان کے علاقے ٹھٹھہ میں پہنچا  اور یہاں تقریباً چھ ماہ قیام کیا۔ ٹھٹھ میں اس کی جائے قیام آج تک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ٹھٹھ سے چلا، بلوچستان کے غیر آباد اور دشوارگزار راستوں سے ہو تا ہوا، اپنی کثیر جماعت کو ساتھ لے کر قندھار پہنچا ، قندھار سے ایران اور افغان سرحدی علاقے  میں ڈیرہ لگالیا او ر وہیں مر گیا ۔اس نے  مسلم حکمرانوں کو خط بھی لکھے جس میں اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی، یہ خط شمس الدین مصطفائی نے اپنی کتاب مہدوی تحریک   میں  قول المحمود  کے حوالے سے نقل کیا ہے۔جو اس نے مختلف  امراء،سلاطینوں کے نام جاری کیاتھا۔اس میں اس نے لکھاتھا کہ :اے لوگو! اس امر کو سمجھ لو کہ میں محمد بن عبداللہ رسول اللہ (ص) کا ہم نام ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ولایت محمدیہ کا خاتم اورامت مسلمہ  کےلیے خلیفہ بنایا ہے، میں وہی شخص ہوں جس کے آخری زمانے میں مبعوث ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا، اور میں وہی ہوں جس کی خبر رسول اللہ (ص) نے دی تھی،  میں وہی ہوں جس کا سابقہ پیغمبروں کے صحیفوں میں ذکر کیا گیا ، میں وہی ہوں جسے رحمانی خلافت دی گئی ہے۔ اللہ کی طرف سے  مخلوق کو حق کی طرف   بلاتا ہوں، میں اس دعوے کے وقت نشے کی حالت میں نہیں ہوں، بلکہ با ہوش ہوں۔ ہوش میں لائے جانے اور بیدار کیے جانے کا محتاج نہیں ہوں۔ اللہ کی طرف سے مجھے پاک رزق ملتا ہے اور مجھے سوائے اللہ کے کسی اور شے کی ضرورت نہیں، میں ملک و حکومت کا طالب نہیں ہوں اور نہ مجھے ریاست و سلطنت قائم کرنے کی خواہش ہے، میں امارات، ملک اور ریاست کو نجس خیال کرتا ہوں ۔ دنیا کی محبت  چھڑانا میرا کام ہے ۔میری اس دعوت کا باعث یہی ہے کہ میں اللہ کی جانب سے اس دعوت پر مامور ہوں، تاکید سے میں اپنی دعوت تم تک پہنچاتا ہوں۔ اللہ نے میری اطاعت فرض کی ہے۔اسی طرح اسی خط میں یہ بھی تھا  کہ  اگر تم نے میری بات پر توجہ نہ دی تو تمہارا جھٹلانا ثابت ہو گا۔ اگر تم نے مجھے جھوٹ کہا تو تمہاری  پکڑ ہوگی ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں امت محمدیہ کا نجات دہندہ ہوں، تم پر لازم ہے کہ دھوکے میں نہ رہو بلکہ میرے اقوال افعال اور احوال کو قرآن پاک سے ملاو اور غور کرو۔ یہ سب کچھ اس نے اپنے اس خط میں لکھاتھا جو امراء اور سلاطین کو بھیجا تھا،اس کے ماننے والے آج بھی بلوچستان میں موجود ہیں اور ذکری فرقہ کہلاتے ہیں۔لیکن صرف اسی علاقے تک محدود ہیں۔پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ وہان تبلیغ اور اصلاح کے حوالے سے سرکاری سطح پر انتطام کرے اور ان لوگوں کو گمراہی  سے نجات  کےلیے اپنی ذمہ داری اداد کرے۔ورنہ کئی لوگ بے چارے اسی گمراہی میں مارے جائیں گے۔

(تحریر : ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران