مہدویت کا انتیسواں جھوٹا دعویدار : محمد احمد مہدی سوڈانی



مہدویت کا انتیسواں جھوٹا دعویدار : محمد احمد مہدی سوڈانی

نبی آخر الزمان  پیغمبر سیدنا محمد کریم (ص) نے فرمایا تھا کہ  میرے بعد کوئی نبی نہیں  ہوگا۔لیکن میرے  بعد بہت سے جھوٹے ، کذاب اور   دجال آئیں گے جو نبوت  کا دعوی کریں گے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے ،آپ(ص) کی  بات پوری ہوئی ،آپ کے بعد بے شمار ایسے دجال آئے،جنہوں نے نبوت کا یا مہدی ہونے  دعوی کیا ۔سادہ لوح لوگ جو حکومتوں کے ستائے ہوتے ،اور ان کے ظلم وستم  کا شکار ہوتے ،وہ ہمیشہ کسی  ایسے شخص کی طرف دیکھتے کہ جو انہیں ان کے ظلم وستم سے نجات دے۔چنانچہ ظلم سے چھٹکارہ دلانے  کےنعرے کے ساتھ جو  کوئی  کھڑا ہوتا لوگ اس کی طرف لپک پڑتے ۔جب کامیابی مل جاتی ،لوگوں میں اس کا عزت اور مقام مل جاتا تو پھر اس کا دماغ ہوتا ،اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اب نبوت کا دعوی کر دیا جائے۔یا ایسا منصب اختیار کرلیا جائے جو  لوگوں کو میرے ساتھ جوڑے رکھے اور وہ سمجھیں کہ اگر وہ میرے ساتھ نہیں رہیں گے تو انہیں سخت نقصان  ہوگا۔اور وہ جنت میں  بھی پھر ہی جائیں گے  کہ اگر وہ میرے ساتھ جڑے رہیں گے ،ورنہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ،چنانچہ سادہ لوح لوگ اس کی باتوں میں آکر اس کے پیچھے چل نکلتے،یوں اس کے بہکاوے کا شکار ہو کر راہ راست سے ہٹ جاتے ۔تاریخ میں ایسا ہی ایک نام محمد احمد سوڈانی کا ہے ،اس کا نام محمد احمد بن سید عبد اللہ تھا،اس نے بھی اپنی ماں کا نام آمنہ اور باپ کا نام  عبد اللہ مشہور کر رکھاتھا،یہ مرزا غلام احمد قادیانی کا  ہم عصر تھا،فرق یہ تھا کہ مرزا قادیانی  انگریز کا کاشت کردہ  تھا جبکہ محمد احمد سودانی انگریز  کے ظلم وستم کے خلاف نکلا تھا۔اس نے بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا،گھر سے  بھاگ کر خرطوم کے ایک مدرسے میں داخل ہوا،کچھ تعلیم حاصل کی،پھر مختلف مدرسوں میں پھرتا رہا،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس  نے جامع ازہر میں بھی  کچھ  تعلیم پائی ۔ خرطوم میں طریقہ  سمانیہ  کی تعلیم حاصل کی ،اس طریق تصوف  کے بانی سے اختلاف ہوا تو  اس سے الگ ہوگیا۔اس کے زہد وورع کی  شہرت دور دور تک پھیلنے لگی،لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے،بالاخر ایک وقت ایسا آیا کہ  جب طریق  سمانیہ کا بانی مر گیا تو اس نے اس کی گدی پر  قبضہ کرلیا،اس وقت  انگریز کا دور تھا،لوگ ان سے اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں سے بہت تنگ تھے،اس نے ان  کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان کردیا،لوگ جوق در جوق اس کے گرد جمع ہونے لگے،چنانچہ اسلحہ کی فراہمی شروع ہوئی اور  حرب وضرب کی تیاریاں ہونے لگیں،جب اس کے پاس کچھ فوجی طاقت بھی آگئی  ،مقبولیت  پہلے ہی تھی تو پھر شہرت  اور مقبولیت بھی ملی ،ان چیزوں  نے  نے جیسے پہلے لوگوں کے دماغ خراب کیے تھے،ویسے ہی اس کا دماغ بھی خراب  کرنے لگیں ،مئی اٹھارہ  سو اکاسی  میں اس نے  سوڈان کے تمام ممتاز لوگوں کے نام مراسلات بھیجنا شروع کردیئے  کہ  نبی کریم(ص) نے جس مہدی کے آنے کی پشین گوئی فرمائی تھی ،وہ میں ہی ہوں،مجھے  خداوند  عالم کی طرف سفارت کبری عطا ہوئی ہے  تاکہ میں دنیا کو عدل وانصاف  سے بھردوں اور ان تمام  خرابیوں کی اصلاح کروں  جو لوگوں نے دین متین میں پیدا کردی ہیں،مجھے حکم ہوا ہے  کہ تمام  عالم میں ایک مذہب،ایک شریعت ،اور ایک ہی بیت المال قائم کردوں اور جو شخص میرے حکم کی تعمیل نہ کرے اسے قتل کردوں،محمد احمد نے رمضان میں مہدی ہونے کا دعوی کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں  سوڈان اور مصر کے طول وعرض  میں اس  کی دعوت کا چرچہ ہونے لگا،جولائی اٹھارہ سو اٹھاسی  میں روف پاشا  جو سوڈان کا گورنرجنرل  تھا،اس  نے اس کے پاس اپنے ایک  وزیر کے ساتھ کچھ   علماء بھیجے  کہ  وہ پوچھ گچھ کریں،کہ یہ کیا چاہتا ہے اور کیا دعوی ہے،وہ اس کے پاس گئے،خیالات جانے ،اس کے خیالات بہت انقلابی تھے ،وہ انگریز کے خلاف تھا،اور مصرکی حکومت جو   یہود ونصاری  کے ساتھ مل لوگوں کو گمراہ کرنے پر تلی ہوئی تھی  ،اس کے بھی سخت خلاف تھا،یہ کہتا کہ  میں ان کی اصلاح چاہتا ہوں، وزیر نے اسے کہا کہ اپنے آپ کو گورنر کے حوالے کردو، اس سے پہلے کہ  انگریز اور  مصر کے ساتھ مل گورنر جنرل تیرے اوپر چڑھائی کردے اور تجھے نشان عبرت بنادے ،محمد احمد مہدی نے اپنی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا  اور کہاکہ  کسی بدبخت کی مجال ہے کہ وہ  میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے،وزیر دیکھ کر سہم گیا اور وہاں سے علماء سمیت  چلتا بنا،وزیر ابو السعود  نے گورنر جنرل کو کہا کہ مجھے پچاس سپاہی دو ،میں  اسے گرفتار کر  کے لے آتا ہوں،اس نے اسے پچاس افراد دیدیئے ،یہ وہاں پہنچا ،لیکن کیا تھا  کہ بری طرح سے شکست کھا گیا۔اس ناکام مہم میں سوڈانی حکومت  پیچھے ہٹی تو محمد احمد  آگے بڑا۔اسے حوصلہ ملا۔مصری حکومت کی ناکامی  کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مصری حکومت نے سوڈانی باشندوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا  تھا،جس کا سوڈانیوں میں شدید رد عمل پہلے سے ہی تھا،اس لیے اٹھارہ سو تراسی  میں انہوں نے محمد احمد مہدی کے علم تلے   علم بغاوت بلند کیا۔ اس واقعے کے بعد مہدی سوڈانی کے پیرو کاروں  نے دو سال کے اندر اندر تقریباً پورے سوڈان پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مصر پر انگریزوں کا مکمل  تسلط قائم ہوچکا تھا۔ چنانچہ مصری حکومت نے بغاوت کچلنے کے لیے ایک انگریز فوجی جنرل گورڈن کی خدمات حاصل کیں لیکن جنرل گورڈن کو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور وہ مارا گیا۔لارڈ گورڈن نے افریقہ سے  سوڈان تک فتح کیا اور سوڈان ہی میں قیام اختیار کیا تھا،سوڈانیوں کی حالت آج جتنی ابتر ہے ، اس وقت    اس سے ہزار گنا بدتر تھی۔  اس وقت کے جدید ترین اسلحے سے مسلح اور جدید ترین جنگی تربیت یافتہ فوج کے سربراہ جرنل گورڈن کے مقابلے میں سوڈانیوں کے پاس تیر و تلوار اور خچر و گدھے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جذبہ آزادی کی جنگ میں نفسیاتی اور ذہنی کیفیت اسلحے  سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔چنانچہ اس  جنگ ہوئی ،اس  جنگ میں  محمد احمد مہدی کو کامیابی مل گئی اور انگزیز اور مصری حکومت  کو عبرتناک شکست ملی،گورڈن براؤن کا سر  وہیں کٹا اور وہ اپنے انجام کو پہنچا۔  چند دن بعد دنیا مبہوت رہ گئی جب بے سروسامان درویشوں کے ایک لشکر نے سپرپاور کو شکست دی۔  گورڈن کے مصری ساتھی اسماعیل پاشا تھا،اس کے سامنے محمد احمد مہدی  کا کوئی پیروکار  ایک ٹرے میں گورڈن براؤن کا سر لیکر گیا اور اسے  پیغام دیا کہ جو ھال انگریزوں کا کیا ہے وہی حال  تمہارا ہوگا۔لیکن اس کے بعد مہدی سوڈانی کا مصر کے خلاف جنگی تیاریوں میں  مصروف ہوا،لیکن اسی دوران وہ فوت  ہوگیا۔اس کے بعد اس کے پیروکار آگے نہ بڑھ سکے اور  پھر بالاخر انگریز اور مصری حکومت غالب آگئے۔ مہدی سوڈانی  نےاپنی زندگی  میں  کامیابی حاصل کرکے نیل کے مغربی کنارے پر خرطوم کے بالمقابل ام درمان کے شہر کو اپنا دار الحکومت بنایا۔ حکومت سنبھالتے ہی اس نے اصلاحات نافذ کرنا شروع کر دیں۔ نئے سکے جاری کیے اور جن لوگوں کو سابق حکومت نے ناجائز طور پر زمینوں سے بے دخل کر دیا تھا، انہیں ان کی زمینیں واپس کردیں۔ فضول رسوم کو ختم کرنے کی کوشش کی اور شراب و نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا۔ عورتوں کو پردے کی ہدایت کی گئی، شادی بیاہ پر فضول اخراجات سے روکا گیا اور جہیز پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ انیس سو  میں جب سوڈان پر انگریزی و مصری قبضہ مکمل ہوگیا تو  انگریز  لارڈ نے جذبہ انتقام سے مغلوب ہوکر مہدی کی قبر کھدوادی اور اس کی ہڈیاں جلاڈالیں۔انگریز اس کی زندگی میں تو کچھ نہ کر سکا لیکن اس کی موت کے بعد اس کی ہڈیوں سے انتقام لیتارہا،یہ اگرمہدی ہونے کا دعوی نہ کرتا تو امت اسے قبول کرتی لیکن اس کے اس دعوے نے اسے  صحیح العقیدہ مسلمانوں میں  مقبولیت  نہ حاصل کرنے دی۔اسی کی مزاحمت سے  تنگ آکر بر صغیر میں  انگریز نے مرزا قادیانی کو پلانٹ کیا تھا،تاکہ اس سے پہلے کہ  کوئی ہمارا مخالف مہدی ہونے کا دعوی کردے اور    ہمارے لیے مشکل بنادے،ہم سے ستائے لوگ اس سے جڑ کر ہمارے ساتھ جنگ کےلیے آمادہ ہوجائیں ،اس سے پہلے اپنے ہاتھ کا مہدی بلکہ نبی لے آؤ ،تاکہ  اسے خود کنٹرول کر سکیں۔چنانچہ مرز ا غلام احمد قادیانی ان کی امیدوں پر پورا اترا اور انگریز کی خوب کدمت کی، لیکن یہ مسلمانوں نے  مقبولیت نہ حاصل  کر سکا،جیسے مرزا قادیانی کے پیروکار  موجو دہیں ایسے ہی محمد احمد مہدی سوڈانی کے پیروکار  سوڈان میں آج بھی  موجود ہیں،مرزا قادیانی کے پیروکار اب چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس کے پیروکاروں میں مرزا قادیانی کی  تعلیمات کی مقبولیت ہوجائے  اور وہ سب قادیانی بن جائیں،اس کےلیے وہ  وہاں تبلیغی مشن بھیجتے رہتے ہیں،لیکن ابھی تک انہیں کو ئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ایسی ہی مزید وڈیوز کےلیے ہمارے چینل کو فالو کیجئے اور باطل اور گمراہ لوگوں  سے آگاہ رہیئے۔

(تحریر :ڈاکٹر ایم ۔اے رحمن )

  

ایک تبصرہ شائع کریں

comments (0)

جدید تر اس سے پرانی

پیروکاران