عبداللہ بن سبا یہودی
آج
ہم جس غددار اور منافق کا تعارف آپ کے سامنے رکھنے جارہے ہیں ،تاریخ میں اسے عبد
اللہ بن سبا کے نام سے جانا جاتاہے۔عبد اللہ بن سبا ساتویں صدی عیسوی کی اسلامی
تاریخ کا ایک کردار ہے۔ وہ پہلے یہودی تھا ،بعد میں بظاہر مسلمان ہو گیا۔ اس نے
دوسرے منافقین کے ساتھ مل کر نو مسلموں کو فریب دیا۔ اسلام کے مٹائے ہوئے خاندانی
امتیاز اور نسلی عصبیت کو اسلامی تعلیمات
اور ایمانی مقاصد کے مقابلے میں پھر زندہ کیا۔ عبد اللہ بن سبا
نےمدینہ ،بصرہ ،کوفہ،دمشق اور قاہرہ کے تمام مرکزی شہروں میں کچھ کچھ عرصہ قیام کیا۔
وہاں سیدنا عثمان کے خلاف نہایت چالاکی، ہوشیاری اور شرارت سے بنی امیہ اور بنی
ہاشم کے درمیان مردہ ہوچکی پرانی عداوت
اور عصبیت کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء شہر
صنعا کا رہنے والا ایک یہودی تھا۔وہ سیدنا عثمان غنی کے عہد خلافت میں اس نے دیکھا
کہ مسلمانوں میں مال ودولت کی فروانی ہوگئی ہے اور اب یہی دنیا میں سب سے
بڑی فاتح قوم بن گئی ہے۔ وہ مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔مدینہ
میں اس کا آنا اور رہنا بہت ہی غیر معروف اور ناقابل توجہ
تھا لیکن اس نے مدینہ میں رہ کر مسلمانوں کی اندرونی اور داخلی کمزوریوں کو
خوب جانچا ۔اسلام مخالف تدابیر کو خوب سوچا‘ انہیں ایام میں بصرہ کے
اندر ایک شخص حکیم بن جبلہ رہتا تھا‘ اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ اسلامی لشکر کے
ساتھ کسی فوج میں شریک ہو جاتا ۔ موقع پا کر ذمیوں کو لوٹ لیتا، کبھی کبھی اور
لوگوں کو بھی اپنا شریک بناتا اور ڈاکہ زنی کرتا۔ اس کی ڈاکہ زنی کی خبریں مدینہ میں
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچیں۔ انہوں نے گورنر بصرہ کو لکھا کہ حکیم بن
جبلہ کو بصرہ میں نظر بند رکھو اور شہر کی حدود سے باہر نہ نکلنے دو۔ اس حکم کی تعمیل میں وہ بصرہ کے
اندر محصورا ور نظر بند رہنے لگا۔ عبداللہ بن سبا حکیم بن جبلہ کے حالات سن کر مدینہ
سے روانہ ہوا اور بصرہ میں پہنچ کر حکیم بن جبلہ کے مکان پر قیام پذیر ہوا۔ یہاں
اس نے حکیم بن جبلہ اور اس کے ذریعے اس کے دوستوں اور دوسرے لوگوں سے مراسم پیدا
کئے۔ اپنے آپ کو مسلمان اور آل رسول
کاحامی او رخیر خواہ ظاہر کیا۔اور لوگوں کے دلوں میں اپنے منصوبے کے مطابق فساد انگیز خیالات اور عقائد پیدا کرنے لگا۔
کبھی کہتا کہ مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کے تو قائل ہیں کہ سیدنا عیسیٰ
علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ سیدنا محمد صلی
اللہ علیہ و سلم بھی دنیا میں ضرور آئیں گے، چنانچہ اس نے لوگوں کو سورت القصص کی آیت نمبر
پچاسی کی غلط تفسیر سنا کر اس عقیدے کی تبلیغ شروع کردی کہ سیدنا محمد(ص) دوبارہ
دنیا میں تشریف لائیں گے۔ بہت سے احمق اس فریب میں آ گئے‘ پھر اس نے ان
احمقوں میں اس عقیدے کی تبلیغ شروع کی کہ
ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہوا کرتا ہے ۔ سیدنا محمد کے وصی سیدنا علی رضی
اللہ عنہ ہیں۔ جس طرح رسول اللہ خاتم الانبیاء ہیں، اسی طرح سیدنا علی خاتم الاوصیاء
ہیں۔ پھر اس نے علانیہ کہنا شروع کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا کر بڑی حق تلفی کی ہے۔
اب سب کو چاہیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مدد کریں اور موجودہ خلیفہ کو قتل یا
معزول کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیں۔عبداللہ بن سبا یہ تمام
منصوبے اور اپنی تحریک کی ان تمام تجویزوں کو مدینہ منورہ سے سوچ سمجھ کر بصرہ میں
آیا تھا ۔ اس نے نہایت احتیاط اور قابلیت کے ساتھ اپنی بد عقیدگیوں کو شائع کرنا
اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔رفتہ رفتہ اس فتنے کا حال بصرے کے گورنر
عبداللہ بن عامر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن سبا کو بلا کر پوچھا کہ تم
کون ہو۔کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو، عبداللہ بن سبا نے کہا مجھے اسلام سے
دلچسپی ہے، میں اپنے یہودی مذہب کی کمزوریوں سے واقف ہو کر اسلام کی طرف متوجہ ہوا
ہوں اور یہاں آپ کی رعایا بن کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں، عبداللہ بن عامر نے کہا
کہ میں نے تمہارے حالات اور تمہاری باتوں کی تحقیق کی ہے۔ مجھے تو یہ معلوم ہوتا
ہے کہ تم کوئی فتنہ برپا کرنا اور مسلمانوں کو گمراہ کر کے اسلامی جمعیت
میں افتراق او رانتشار پیدا کرنا
چاہتے ہو۔چونکہ عبداللہ بن عامر کی زبان سے درست
باتیں نکل گئی تھیں، لہذا اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے بصرے میں اپنا قیام
مناسب نہ سمجھا ۔ اپنے خاص الخاص راز دار اور شریک کار لوگوں کو وہاں چھوڑ ا۔اور
اپنی بنائی ہوئی جماعت کے لیے مناسب تجاویز و ہدایات سمجھا کر بصرہ سے چل دیا
۔اور دوسرے اسلامی فوجی مرکز یعنی کوفہ میں
آیا، یہاں پہلے سے ہی ایک جماعت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے عامل کی
دشمن موجود تھی، عبداللہ بن سبا کو کوفہ میں آ کر اپنی شرارتوں کو کامیاب بنانے
کےلئے بصرہ سے زیادہ بہتر موقع ملا۔
عبداللہ بن سبا کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی۔دوسری طرف اسے سیدنا عثمان غنی
رضی اللہ عنہ سے خاص ذاتی عداوت تھی، اور وہ سیدنا عثمان غنی سے کوئی انتقام یا
بدلہ لینے کا خواہشمند معلوم ہوتا تھا۔کوفہ میں آ کر بہت جلد عبداللہ بن سبا نے
اپنے زہد اور تقوےکا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا۔ عام طور پر لوگ اسے تعظیم ا
ور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کا ادب ا ور لحاظ کرنے لگے۔ جب کوفہ میں
عبداللہ بن سبا کے پھیلائے ہوئے خیالات کا چرچا ہوا تو یہاں کے گورنر سعید بن
العاص نے اسے بلا کر ڈانٹا اور وہاں کے سمجھ دار اور بااثرآدمیوں نے بھی اس کو
مشکوک آدمی سمجھا۔ چنانچہ عبداللہ بن سبا کوفہ سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا‘
مگر جس طرح بصرہ میں وہ اپنی ایک جماعت چھوڑ آیا تھا‘ اسی طرح کوفہ میں بھی اس نے
اپنی ایک زبردست جماعت چھوڑی۔جس میں مالک
اشتر وغیرہ جیسے لوگ اور ان کے احباب و
اقارب شامل تھے۔کوفہ سے جب وہ شام یعنی
دمشق میں پہنچا تو یہاں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلدی ہی اسے یہاں سے شہر بدر
ہونا پڑا،عبداللہ بن سبا کی عداوت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ سے
دم بہ دم ترقی کر رہی تھی ۔اور ہر جلاوطنی اس کے لیے ایک نیا میدان اور نیا موقع
کامیابی کا پیدا کر دیتی تھی، شام سے نکل
ہو کر وہ سیدھا مصر میں پہنچا۔وہاں کے گورنر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ
تھے۔مصر میں عبداللہ بن سبا نے اپنے سابقہ تجربے سے فائدہ اٹھا کر زیادہ احتیاط
اور زیادہ گہرے پن کے ساتھ کام شروع کیا،یہاں اس نے اپنی خفیہ سوسائٹی کا مکمل
نظام مرتب کیا اور محبت اہل بیت اور حمایت علی رضی اللہ عنہ کے اظہار کو خاص
الخاص کامیابی کا ذریعہ بنایا۔ مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد سے وہاں کے
مصریوں اور مقیم عربوں کو شکایات تھیں۔ عبداللہ بن سعد کو
افریقہ بربر‘ اور قیصر قسطنطنیہ کے معاملات کی وجہ سے داخلی
باتوں کی طرف زیادہ متوجہ رہنے کی فرصت بھی نہ تھی۔
یہاں
سے عبداللہ بن سبا نے اپنے بصرہ اور کوفہ کے دوستوں سے خط و کتابت جاری کی۔
مقررہ اور مجوزہ نظام کے مطابق مصر‘ کوفہ اور بصرہ سے وہاں کے عاملوں کی شکایت
میں مدینہ والوں کے پاس مسلسل خطوط جانے
شروع ہوئے۔ ساتھ ہی بصرہ والوں کے پاس کوفہ اور مصر سے خطوط پہنچے کہ یہاں کے
گورنروں نے بڑے ظالم ہیں ۔ انہوں نے رعایا
پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، اسی طرح بصرہ اور کوفہ سے مصر والوں کے پاس اور بصرہ
،مصر اور دمشق سے کوفہ والوں کے پاس خطوط پہنچنے لگے، چونکہ کسی جگہ بھی عاملوں
اور گورنروں کے ہاتھ سے رعایا پر ظلم نہ ہوتا تھا۔ لہذا ہر جگہ کے آدمیوں نے یہ
سمجھا کہ ہمارے علاوہ تمام صوبوں پر ظلم و تشدد اور بے انصافی روا رکھی جا رہی ہے
۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ظالمانہ طور پر اپنے عاملوں اور گورنروں کو ان کے
عہدے پر بحال رکھنے اور معزول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ چوں کہ ہر ایک صوبے اور ہر
ایک علاقے سے مدینہ منورہ میں بھی برابر خطوط پہنچ رہے تھے۔ لہذا سیدنا عثمان غنی
رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مصر کی جانب اور محمد بن مسلمہ کو
کوفے کی طرف روانہ کیا کہ وہاں کے حالات دیکھ کر آئیں اور صحیح اطلاع دربار خلافت
میں پہنچائیں‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جب مصر میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں نے
جو عبداللہ بن سعد گورنر مصر سے ناخوش تھے‘ اور ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سبا کی
جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو اپنا ہم نوا ور ہم خیال
بنا لیا ۔ ان کو مدینہ منورہ میں واپس جانے سے یہ کہہ کر روک لیا کہ سیدنا عثمان دیدہ
و دانستہ ظلم و ستم کو روا رکھتے ہیں۔ان کی امداد و مصاحبت سے پرہیز کرنا مناسب
ہے۔ محمد بن مسلمہ نے کوفہ پہنچ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ یہاں
کے عوام اور بعض شرفاء‘ بھی علانیہ زبان
درازی اور طعن و تشنیع پر زبان کھولتے اور عذر
او ربغاوت کا اظہار کر رہے ہیں۔ گویا
عبد اللہ بن سبا اور اس کی تنظیم اپنا کام
دکھا چکی تھی۔اس نے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی جو کوششیں کی تھیں۔ وہ اب ثمر آور ہونا شروع
ہوگئیں تھیں ۔اور پھر اس کی جماعت نے آج
تک جو وہی کام کیا ہے جس پر وہ لگاگیا تھا۔اور مسلسل لعنتیں سمیٹ رہاہے۔ عبد اللہ
بن سبا نے سب سے پہلےمدینہ منورہ یعنی دار الخلافہ میں اپنے شر انگیز خیالات کی
اشاعت کرنی چاہی مگر چونکہ یہاں صحابہ کرام کی کثرت اور ان کا اثر غالب تھا۔ لہذا
اس کو ناکامی ہوئی ۔ خود ہاشمیوں نے ہی اس کے خیالات کو سب سے زیادہ ملعون و مردود
قرار دیا۔ مدینہ سے مایوس ہو کر وہ بصرہ پہنچا۔ وہاں عراقی ا ور ایرانی قبائل کے
نو مسلموں میں اس نے کامیابی حاصل کی اور اپنی ہم خیال ایک جماعت بنا کر کوفہ
پہنچا۔ اس فوجی چھاؤنی میں بھی ہر قسم کے لوگ موجود تھے ۔یہاں بھی وہ اپنے حسب
منشا ایک مفسد جماعت بنانے میں کامیاب ہو ا، کوفہ سے دمشق پہنچا ۔وہاں بھی اس نے
تھوڑی سی شرارت پھیلائی، لیکن سیدنا امیر
معاویہ کے بروقت اقدامات کرلینے کی وجہ
سے یہ وہاں زیادہ دنوں تک قیام نہ کر سکا،
وہاں سےقاہرہ پہنچ کر اس نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
بصرہ اور قاہرہ کے فسادی عناصر نے مل کر مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیا ۔اورسیدنا
عثمان غنی شہادت کا واقعہ ظہور میں آیا۔
اس فتنے نے تیس ہجری سےچالیس ہجری تک مسلمانوں کوخانہ جنگی میں مصروف رکھ کر
اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام کو نقصان پہنچایا۔سیدنا حسن نے اکتالیس ہجری میں عبد اللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں کے
پیدا کردہ فتنے کا بڑی ہمت ا ور بہادری سے خاتمہ کیا ۔اور امت مسلمہ پھر سے ایک
مرکز سے وابستہ ہو گئی۔
مصادر ومراجع
الرحیق
المختوم۔از: مولاناصفی الرحمن مبارکپوری
تاریخ
اسلام ۔مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی۔
سیرت
ابو بکر صدیق۔از؛محمد حسین ہیکل
رحمۃ
اللعالمین۔از:قاجی سلیمان منصور پوری
الکامل
فی التاریخ ۔از: علامہ ابن ابن اثیر
ایک تبصرہ شائع کریں